Monday, February 2, 2015

کیا احمد بن حنبل نے اپنی کتاب میں تحریف کی؟



السلام علیکم

احمد بن حنبل کا شمار اہلسنت کے جید ترین علماء میں ہوتا ہے۔ وہ ان کی ایک فقہ کے امام بھی ہیں، اور ان کی مسند احمد کا شمار ان کی معتبر ترین کتب میں ہوتا ہے 

اپنی مسند کے جلد ۵، صفحہ ۲۰۷ پر ایک روایت نقل کرتے ہیں

21848 - حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا أبو معاوية ثنا الأعمش عن شقيق عن أسامة بن زيد قال قالوا له : ألا تدخل على هذا الرجل فتكلمه قال فقال ألا ترون انى لا أكلمه الا أسمعكم والله لقد كلمته فيما بيني وبينه ما دون ان أفتح أمرا لا أحب أن أكون أنا أول من فتحه ولا أقول لرجل أن يكون على أميرا انه خير الناس بعد ما سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول يؤتى بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار فتندلق أقتاب بطنه فيدور بها في النار كما يدور الحمار بالرحا قال فيجتمع أهل النار إليه فيقولون يا فلان أما كنت تأمرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر قال فيقول بلى قد كنت آمر بالمعروف ولا أتيه وأنهى عن المنكر وآتيه 
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط الشيخين

اسامہ بن زید سے پوچھا گیا کہ آپ اس شخص سے ملتے کیوں نہیں اور بات کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے جواب دیا کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ان سے بات کروں اور تمہیں بتاوں؟ بخدا میں ان سے بات کرتا ہوں مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ جو میرے ان کے بیچ بات ہو، وہ میں افشا کروں۔ اور میں کسی شخص سے یہ نہیں کہتا جو میرا امیر بنا ہو کہ وہ سب سے بہتر انسان ہے جب سے میں نے نبی پاک سے یہ سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت والے دن لایا جائے گا اور اسے آگ کے حوالے کیا جائے گا جس سے اس کی آنتیں نکل آئیں گی، اور وہ آگے میں ایسے گھومے گا جیسے کہ گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے، پھر جہنمی اس کے ارد گرد جمع ہو جائیں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! کیا تم ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے اور برائی سے نہیں روکتے تھے؟ وہ جواب دے گا کہ ہاں میں نیک کا حکم دیتا، مگر خود نہ کرتا ،برائی سے روکتا مگر خود اس پر عمل کرتا

شیخ شعیب الارناوط نے سند کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے 

اب روایت کو سمجھنا تو ہم قارئین پر ہی چھوڑتے ہیں کہ یہ اسامہ نے کیوں یہ روایت نقل کی کہ میں کسی کو سب سے اچھا نہیں کہتا گو میرا امیر ہو وغیرہ وغیرہ

تاہم، یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ یہ بات کس کی ہو رہی ہے؟

اب یہی روایت عین اسی سند کے ساتھ مسند ابن ابی شیبہ، ج ۱، ص ۵۵۳ پر بھی درج ہے

152 - حدثنا أبو معاوية ، عن الأعمش ، عن شقيق ، عن أسامة بن زيد ، قال : قيل له : ألا تدخل على عثمان فتكلمه ؟ فقال : أترون أني لا أكلمه ألا أسمعكم والله لقد كلمته فيما بيني وبينه ، ما دون أن أفتتح أمرا لا أحب أن أكون أول من فتحه ، ولا أقول لأحد يكون علي أميرا : إنه خير الناس بعد ما سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : يؤتى بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار ، فتندلق أقتاب بطنه ، فيدور كما يدور الحمار بالرحى فيجتمع إليه أهل النار فيقولون : يا فلان ما لك ؟ ألم تكن تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر ؟ فيقول : بلى قد كنت آمر بالمعروف ولا آتيه ، وأنهى عن المنكر وآتيه

ایک ایک نام کو ملا کر دیکھئے 
ایک ہی ہیں

مگر یہاں پر اس کی وضاحت موجود ہے کہ جس شخص کی بات ہو رہی تھی
وہ خلیفہ ثالث، عثمان ہیں

یہی روایت صحیح مسلم، ۱۹/٦۷ میں بھی موجود ہے

ملاحظہ ہو

7674 - حدثنا يحيى بن يحيى وأبو بكر بن أبى شيبة ومحمد بن عبد الله بن نمير وإسحاق بن إبراهيم وأبو كريب - واللفظ لأبى كريب - قال يحيى وإسحاق أخبرنا وقال الآخرون حدثنا أبو معاوية حدثنا الأعمش عن شقيق عن أسامة بن زيد قال قيل له ألا تدخل على عثمان فتكلمه فقال أترون أنى لا أكلمه إلا أسمعكم والله لقد كلمته فيما بينى وبينه ما دون أن أفتتح أمرا لا أحب أن أكون أول من فتحه ولا أقول لأحد يكون على أميرا إنه خير الناس. بعد ما سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول « يؤتى بالرجل يوم القيامة فيلقى فى النار فتندلق أقتاب بطنه فيدور بها كما يدور الحمار بالرحى فيجتمع إليه أهل النار فيقولون يا فلان ما لك ألم تكن تأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر فيقول بلى قد كنت آمر بالمعروف ولا آتيه وأنهى عن المنكر وآتيه 

اس روایت میں مسلم نے ابن ابی شیبہ اور دیگر سے روایت لی ہے، اور انہوں نے ابو معاویہ سے، اور پھر سند وہی ہے

چونکہ ہم آپ کہ ابن ابی شیبہ سے روایت بتا چکے ہیں، او وجہ سے مزید بتانے کی ضرورت نہیں

تاہم امام مسلم نے مزید ایک بات لکھی ہے

7675 - حدثنا عثمان بن أبى شيبة حدثنا جرير عن الأعمش عن أبى وائل قال كنا عند أسامة بن زيد فقال رجل ما يمنعك أن تدخل على عثمان فتكلمه فيما يصنع وساق الحديث بمثله.

ابو وائل نے کہا کہ ہم اسامہ بن زید کے پاس تھے کہ ایک شخس نے کہا کہ کونسی چیز آپ کو عثمان سے ملنے سے منع کرتی ہے کہ آپ اس سے اس معاملے میں بات کریں کہ جو وہ کرتا ہے، باقی حدیث اسی طرح ہے 

بات یہ ہو رہی تھِی کہ احمد بن حنبل نے حضرت عثمان کا نام لینا پسند نہیں کیا

اچھا یہ مسئلہ صرف امام احمد تک محدود نہیں

بخاری نے بھِی جب اپنی صحیح، ج ۳، ص ۱۱۹۱ میں جب اس حدیث کو درج کیا، تو یوں شروع کیا

3094 - حدثنا علي حدثنا سفيان عن الأعمش عن أبي وائل قال : قيل لأسامة لو أتيت فلانا فكلمته

یہاں بھِی نام نہیں ہے 

تاہم، یہاں ایک بات یاد رہے کہ اعمش سے روایت لینے والے سفیان بن عیننیہ ، اور پھر ان سے علی بن مدینی، اور ان سے بخاری

مگر احمد، مسلم اور ابن ابی شیبہ والی روایت میں اعمش سے روایت ابو معاویہ نے لی تھی 

یہاں سفیان لے رہا ہے

تاہم، جب ہم مسند حمیدی، ج۱، ص ۲۵۰ پر نظر دوڑائیں، تو وہاں یوں ملتا ہے 

547 - حدثنا الحميدي قال ثنا سفيان قال ثنا الأعمش قال سمعت أبا وائل يقول قيل لأسامة بن زيد : ألا تكلم عثمان 

گویا یہ تو واضح ہے کہ سفیان بن عینیہ نے جب یہ روایت اعمش سے لی، تو انہوں نے نام بتایا ہے 

اب یا تو بخاری نے نام کو حذف کیا ہے
اور یا پھر ان کے استاد، علی بن مدینی نے 

جس کا بھی نام لیں، دونوں ہی جید علمائے اہلسنت ہیں ہیں

مگر احمد بن حنبل کا کیس تو کافی واضح ہے

انہوں نے تو اسی سند سے روایت لی کہ جو ابن ابی شیبہ نے درج بھی کی، اور امام مسلم نے بھی درج کی 

1 comment:

  1. بعض اوقات ایک محدث کہیں نام لیتا ہے اور کہیں نہیں لیتا - اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں

    ReplyDelete